کاٹھے انگریز"
پیارے پاکستانیوں!
پاکستان میں اسلام اور سیکولرازم کی بحث ایک طویل عرصہ سے جاری ہے۔ سیکولر حضرات اپنے موقف کے دفاع میں کہتے ہیں کہ سیکولرازم کا مطلب لا دینیت نہیں بلکہ اس کا مطلب دنیاویت ہے۔ ان کے مطابق چونکہ دین اور سیاست دو مختلف نظریات ہیں اس لیے ایک ایسے.
نظام کی ضرورت ہے جو تمام مذاہب کو برابر کی مذہبی آزادی دے سکے تاکہ ملک کے باشندے ذاتی اور شخصی حیثیت میں جتنی چاہیں عبادت کرتے رہیں۔
صیہونیوں کا یہ ہتھیار ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کی تباہی کے لیے سلو پوائزنگ کرتے ہیں تاکہ زہر آہستہ آہستہ اثر کرے اور آخر کار معاشرے کی تباہی کا.
باعث بنے۔
وہ سیکولرازم کا ایک مفہوم رواداری بھی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیکولرازم سے تمام مذاہب میں رواداری پیدا ہوتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے وہ یہ دلیل بھی بڑے زور و شور سے بیان کرتے ہیں کہ قائدِ اعظم نے گیارہ اگست 1947 کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ آزاد ہیں۔.
.
سیکولر حضرات دین کو زندگی کا ایک خوش نما شعبہ بنا کر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جس سے آدمی نماز روزے وغیرہ میں پوری طرح منہمک ہو جائے اور باقی معاملات سے دست بردار ہو جائے۔
یعنی میرا جسم میری مرضی جائز ہو جائے کل کو گے میرج بھی جائز قرار دے دی جائے۔
آپ کچھ نہ بولیں صرف نماز اور.
روزوں میں لگے رہیں۔
دوستو!
قرآن و سنت کی تعلیمات انسانی زندگی کا ایک ہمہ گیر تصور پیش کرتی ہیں۔ اس تصور کے مطابق اسلام صرف مراسمِ عبودیت تک محدود نہیں بلکہ یہ زندگی کے تمام معاملات کے متعلق ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
قرآن کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسلامی ریاست میں حاکمیت.
اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے، ساری دنیا کی مخلوق مل کر بھی اس کی حاکمیت کو چیلنج نہیں کر سکتی۔ اسلامی ریاست قرآن و سنت کی تعلیمات کو نافذ کرتی ہے اور اس کے مطابق معاشرے کو سیاسی، معاشرتی، معاشی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کو ڈھالتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیکولرازم جس مذہبی آزادی ک.
دعویٰ کرتا ہے کیا وہ دینِ اسلام کے اس تصور کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟ جس میں مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ سیکولر ریاست میں بالادستی اسلام کی نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر حضرات مذہب کا محدود تصو.
پیش کرتے ہیں۔
لیکن ایسا تصور پیش کر کے وہ خود مذہبی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
سیکولرازم ایک منفی اور مہلک نظریہ ہے۔ جس کی بالادستی قبول نہیں کی جاسکتی۔ ان چند نکات سے ہی بات واضح ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کو اس باطل نظام کے مقابلے میں ڈٹ کر بات کرنی چاہیے۔.
دوستو!
آج اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھیں، میڈیا کو دیکھیں آپ کو صاف نظر آئے گا کہ ایک طاقت جسے اب سب جانتے ہیں اپنے کارندوں جن میں سیاستدان ، جج، بیوروکریٹس، کاروباری حضرات، میڈیا سے پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کے درپے ہے۔
لوگ اپنے بچوں کو انگریزی بولتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں .
اپنی بیٹیوں کو مغربی لباس میں ملبوس دیکھ کر واہ واہ کرتے ہیں شوق سے پہناتے ہیں اور نساب تعلیم سے اقبال کو غائب کر کے ونسٹن چرچل پڑھا کر خوش ہوتے ہیں۔
ایک مثال سنی ہو گی کہ!
" آدھا تیتر آدھا بٹیر "
میں ایسے لوگوں کو " کاٹھا انگریز" کہتی ہوں
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا.
اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک ان ہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔ "
(المائدہ 51)
مسلمان ہیں تو قرآن کی مان لیں .
اور اگر مسلمان صرف شو شاہ کے ہیں تو پھر آپ بھی!
"کاٹھے انگریز"
بن جائیں میں نے کون سا آپ کے اعمال کا حساب دینا ہے۔ پیغام دینا تھا فرض سمجھ کر پہنچا دیا۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ..
No comments:
Post a Comment
Please Comment with your ID and "Check" the Notify "button" so that you can get reply intimation.